یہ دو طرفہ تھا۔ سیکسی فلم جب میں سکول گئی اور
یا میں واپس آؤں گا، وہ میرا ساتھ دے گا اور یہ گھر والوں کے لیے خوشگوار نہیں تھا، وہ میرے ساتھ جنسی تعلقات نہیں چاہتے تھے، میری کزن
میں دیکھ رہا ہوں کہ مجھے اپنے والد کی سختی کی وجہ سے اسکول چھوڑنا پڑا
اور میرے بھائی کم ہونے چاہئیں۔میری کزن کونی نے میرے گھر والوں کو پرپوز کیا مگر انہوں نے اعتراض کیا۔ جانے کے بعد
نوجوان تعلیم جس نے میرے لیے اپنے کزن کو دیکھنا ناممکن بنا دیا۔
میں نے اس کے لیے رات کو گھر سے نکلنے اور ہر رات اس کے پاس جانے کا انتظام کیا۔
کیونکہ میرے گھر والے سو رہے تھے۔
میں رات 10 بجے سے صبح 4 بجے تک اپنے کزن کے پاس گیا جو ہمارے گھر کے قریب رہتا تھا۔ کئی ماہ تک یہ سیکس سٹوری کا پروگرام چلتا رہا۔
کہ میرے گھر والوں کو سمجھ آ گئی۔ یہ میری سیکس کے لیے ایران تھا۔
وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے لے گئے، اور میں بھی ڈاکٹر کے دفتر سے بھاگا، اور اس فرار نے مجھے ایک نئی تحریر دی جس سے میں کبھی چھٹکارا نہیں پا سکوں گا۔یہ ضروری تھا کہ میں اپنے گھر والوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، میں میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے، کیا میں نے صحیح کام کیا، آیا واپس لوٹنا ہے یا اپنا فرار جاری رکھنا ہے؟ میرے خیالات الجھے ہوئے تھے۔میں کوئی درست اور منطقی فیصلہ نہ کر سکا۔اب مجھے اپنی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔میں نے موٹر بائیک پر بیٹھ کر اپنے آپ کو لکھا۔میں نے اسے ارج کے حوالے کر دیا،وہ مجھے اپنے اکیلی گھر میں لے گیا۔ اس کے ایک گھر میں۔وہاں میری ملاقات مریم سے ہوئی جو میری طرح گھر سے بھاگی ہوئی تھی۔اس کے دوست قاسم۔جواد۔عامر۔
جب قاسم چلا گیا تو اس نے قسم کو چاٹنا شروع کر دیا اس نے اس کے منہ میں چوس لیا تھا یہ واقعی پہلی بار تھا میں سیکس کا مزہ لے رہا تھا مختصر یہ کہ مجھے اچھا لگا وہ میری زبان کے سوراخ سے کھیل رہا ہے ایراج واقعی پاگل ہو گیا تھا۔ پتا نہیں کیا ہوا، میں نے اس کے منہ میں کاٹا، اس نے مجھ سے نفرت کی، میں نے اس کے منہ میں پیشاب کیا، اس نے پھر بھی جانے نہیں دیا، مختصر یہ کہ دو منٹ بعد اس نے جانے دیا، میرا جسم کلیوں کی طرح پھول گیا تھا۔ میں نے کہا میں اپنے آپ کو دھونا چاہتا ہوں تم کہاں سے آ رہے ہو اس نے کچھ نہیں کہا میں نے اسے کہا میں پاگل ہو گیا ہوں میں خود کو خالی کرنا چاہتا ہوں کوئی ایک ہاتھ سے میرے سوراخ سے کھیل رہا تھا میں نے خود کو خالی کیا، تم کرو معلوم نہیں Iraj od نے میرا پاخانہ ہاتھ میں لے لیا تھا، اب میں بیمار ہوں، میں نے اپنے کنمو کو دھویا، میں نے اپنے ہاتھ دھوئے، دن آتے جاتے جاتے تھے، ہم بہت خوش تھے، سیکس میرے والد کا بہترین مفت لباس ہے، مت کرو یہ کرو مذہبی گدھا ہم مایوسی کے کھیل سے بہت دور تھے وہ مجھ میں دلچسپی رکھتا تھا اور وہ مجھ سے پیار کرتا تھا اگر میں بیمار ہوتا تو مجھے اپنی ماں سے زیادہ ملے گا میں نے کہا میری ماں نے میرے دل پر داغ لگا دیا ہے سیکس میں خاص زندگی اور… مثال کے طور پر اس نے سیکس کیا تھا، لیکن میں جانتا تھا کہ اس نے میرے ساتھ سیکس نہیں کیا ہے۔ اور اسے اپنے منہ میں ڈال کر مشت زنی کرنے دیں۔ یہ بہت عجیب تھا، کراش یا اسے میری شارٹس اور کروٹ دھونا پسند تھا، یا وہ کہتا، "مجھے کریم لگانے دو، میں صبح تک سو جاؤں گا، اس نے واقعی ایسا اس لیے کیا تاکہ اسے نیند نہ آئے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔" یقیناً، وہ خدا کی طرف سے تھا، یا اس نے میرے سوراخ کو نہیں چوما، یا اس کی زبان میرے سوراخوں میں سے کسی سوراخ میں تھی، میں چاہتا تھا کہ اپنے بال چھوٹے کر لوں اور لڑکوں کے کپڑے پہنوں تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ میں اس گھر میں اس کے ساتھ ہوں۔ قبول کر لیا، اور اگلے دن ہم مردوں کے ہیئر ڈریسر کے پاس گئے، دن کے وقت، میں نے لڑکوں کی طرح کپڑے پہنے اور کسی نے محسوس نہیں کیا کہ میں ایک لڑکی ہوں، یقیناً، مجھ سے پہلے اور بھی لڑکیاں تھیں جو ان کے ساتھ رہتی تھیں، جیسے سوسن۔
كه باید كیف اورا می ربودیم كیف را از دست صاحبش بكشم و فرار كنیم برای اینكار موقع نزدیك شدن به صاحب كیف سرعت موتور خیلی كم بود وبعداز اینكه كیف را از دست صاحبش میكشیدم یكدفعه سرعت موتور افزوده می شد و موفق می شدیم فرار كنیم برای بار اول وقتی دستم را دراز كردم تا كیف مردی را كه در كنار خیابان قدم می زد بكشم دلهره و ترس و اضطراب درونی و ضعف دستهایم مانع آن شد كه موفق شوم و بدون نتیجه متواری شدیم روز بعد برای بار دوم دست به این كار زدم با توجه به تجربه روز گذشته موفق شدم كیف مردی را بربایم 250 هزار تومان داخل كیف بود به این كار ادامه دادم و برایم عادت شده بود ونه تنها دیگر از دلشوره روزهای اول خبری نبود بلكه از ربودن كیف آقایان لذت هم می بردم سرها در هر نوبت از كیف قاپی به من 10 تا 15 هزار تومان می دادند و بیشتر پولها را خودشان بر می داشتند و می گفتند مخارج اجاره خانه و تعمیر موتور زیاد است علاوه بر ایرج با پسرهای دیگر هم به كیف قاپی می رفتم كار به جایی رسید كه خودم هم موتور سواری می كردم روزهای جمعه می رفتیم پیست موتور سواری كسی متوجه نمی شد كه من دختر هستم البته به جز من دختر های دیگری هم بودند كه لباس پسرانه می پوشیدند و به آنجا می آمدند چند ماهی همین طوری سپری شد و من غرق در كارهای خلاف بودم و به عاقبت آن نمی اندیشیدم فكر نمی كردم روزی با بن بست مواجه شوم و بفهمم این راهی كه می روم به اعماق تباهی و نابودی است راهی است كه آخر آن پشیمانی و ندامت است راهی است كه پایان ان سیاهی است روزی با ایرج قاسم و فرامرز تصمیم گرفتیم برای تفریح به شمال برویم با دو موتور راه افتادیم قرار شد كه برای در آوردن مخارج سفر در بین راه كیف قاپی كنیم شخصی را برای این كار انتخاب كردیم قاسم و فرامرز كیف او را ربودند و با همدیگر متواری شدیم وبه سوی جاده شمال با سرعت زیاد حركت كردیم غافل از اینكه هنگام ربودن كیف ماموران مخفی پلیس ما را دیده اند و در تعقیب ما هستند وقتی به ما نزدیك شدند دستور ایست دادند توجه نكردیم و به سرعت موتور افزودیم كه در همین تعقیب و گریز موتور به جدول كنار خیابان برخورد كرد و هر چهار نفرمان را دستگیر كردند و به اداره پلیس بردند به پدر و مادرم اطلاع دادند وقتی آنها را دیدم انگار سالهای زیادی است كه از آنان دور بوده ام در طول این چند ماه آنها به اندازه چند سال پیر شدند اینجا بود كه فهمیدم پدر و مادرم چه زجری كشیده اند و من غرق در خوشگذرانی خود بوده ام من آنها را فراموش كرده بوده ام ولی آنها مرا فراموش نكرده بودند در این مدت چه سختی هایی كشیده و كجاها به دنبال من نگشته بودند چه شبها كه تا صبح مادرم نخوابیده و گریه كرده بود و پدرم چه غمی در دل خود داشته كه او را خمیده و گرد پیری زودرسی سر و صورت او را پوشانده بود اینجا بود كه به اشتباه خود پی بردم و پشیمانی و ندامت به سراغم امد كه دیگر سودی نداشت انتظار داشتم پدر و مادرم مرا سرزنش كنند و به باد ناسزا و كتك بگیرند ولی مادرم با دستهای مهربان خود مرا می كاوید كه ایا سالم و سلامت هستم و پدر در زیر فشار این شرمندگی كه من بر دوش او گذاشته بودم سر فرود اورده ودر غم خود فرو رفته و سكوت اختیار كرده بود نمی دانستم چه كار باید بكنم آیا اشتباه من قابل جبران بود؟ اگر توسط پلیس دستگر نمی شدم تا كجا می خواستم ادامه بدهم؟ ایرج نامرد رو ندیدم دیگه خبری هم ازش ندارمم دوستام هم خبری نداشتن تا این که شنیدم دبی رفته وخبری هم نداشتم پسر عموم هم زن گرفته بود شاید اگه نمیگرفت هم من رو دیگه نمیخواست دیگه خواستگار هم نداشتم زندگی خسته کننده داشتم الان که فکر میکنم چقدر با ایرج حال کرده بودم چه کارها که نکرده بودم خجالت میکشم چه کثافت کاریها سئوال از شما جوانها ایا ایرج مریض یا دیوانه بود یا حشرش بالا بود یا منو دوست داشت ایا من تقصیر کار بودم ؟ تو این ماجرا شما بودی چکار میکردی؟ پاسخ سوالم را می دانستم هرگز این اشتباه جبران شدنی نبود چطور می توانستم شرافت از دست رفته خود را جبران كنم این ننگی كه من بر دامان خانواده ام گذاشته بودم چگونه زدودنی بود؟این ننگی كه بر پیشانی من خورده بود با چه چیزی پاك می شد؟چطور می توانستم از انگشت نما شدن خود و خانواده ام جلوگیری كنم؟ با كدام عمل و كار نیكی می توانستم سرافكندگی انها را به سربلندی بدل كنم؟ چگونه می توانستم غرور له شده خانواده ام را باسازی كنم؟با رفتاری كه مرتكب شده بودم چگونه می توانستم به آینده خود خوشبین باشم؟ با گذراندن شبها پیش افراد غریبه چگونه كسی می توانست مرا دوست داشته باشد و به عنوان شریك زندگی خود انتخاب كند؟هزاران سوال از این دست كه به جز گریستن و اشك ریختن پاسخی برای آن نداشتم راستی مقصر كیست؟خودم یا پدر و برادرانم كه از آزادی ام را محدود می كردند و رفت و آمدها یم را به طور مفرط كنترل می كردند یا مادرم كه چندان رفتار محبت آمیزی با من نداشت و اهمیتی به خواسته هایم نمی داد و یا همگی؟ آیا جامعه هم مقصر است؟آیا مسولین هم مقصرند چرا كسی پیدا نشد در همان روزهای اول دست مرا بگیرد و از غرق شدن در منجلاب جلوگیری كند؟آیا همه اینها را باید سرنوشتم بدانم و برای خود هیچ نقشی قائل نشوم؟ شما كه این سرنوشت را می خوانید چه فكر می كنید؟ مقصر كیست؟ چكار باید كرد كه دخترانی چون من مریم ماندانا و فرانك و دیگران به این سرنوشت دچار نشوند؟ لطفا جواب این سئوال ها رو بدین حتما تا بقیه داستان زندگیم رو براتون تعریف کنم در ضمن واقعا این موضوع اتفاق افتاده برام این داست
یہ میری زندگی کی اس کہانی کی نہ تو کوئی نقل ہے اور نہ ہی کوئی تصور