ہم نے کلاس اور ٹیچر سے سیکسی بچوں کو گھما کر گھر جانا ہے کب گھر جانا ہے۔
میں لڑکیوں کے جوتوں کا ایک جوڑا لیے پچھلے دروازے پر پہنچا مجھے پتہ چلا کہ میری کزن شیما آئی ہے۔
دو سال شاہ مجھ سے چھوٹا ہے اور چونکہ شیما کے ساتھ بہت دوستانہ ہے، زیادہ
روزا شیما ہمارا گھر ہے۔) میں انہیں ڈرانے کے لیے آہستہ آہستہ ہال میں داخل ہوا، لیکن ان کی کوئی خبر نہ تھی۔
میں خود کو سحر (اپنی بہن) کے کمرے کے پیچھے لے گیا۔
میں نے اپنی بہن کی آہیں اور آہیں سنیں۔میں بہت متجسس ہوا میں نے آہستگی سے دروازہ کھولا، میں نے تہہ سے اپنی زندگی کا عجیب منظر دیکھا۔میری بہن
کوسزاد کی ماں اپنے بستر پر برہنہ بیٹھی تھی اور شیما اس کا سر تھا۔
اس نے اسے اس کی ٹانگوں کے بیچ میں ڈال دیا تھا اور اس کی چوت کھا رہا تھا مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسا کر رہے ہیں میں واپس جانا چاہتا تھا لیکن یہ کہانی کے لیے سیکس کرنے کا بہترین موقع تھا۔
میں اسے دو سال سے ڈھونڈ رہا تھا اور میں ایران میں کبھی جنسی تعلقات قائم کرنے کے قابل نہیں تھا۔
مجھے کچھ کرنا تھا۔میری آنکھوں کے سامنے ننگی دیوار تھی۔ میں نے جلدی سے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر دیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟میں نے ان سے کہا کہ میں انسان ہوں، مجھے کچھ وقت لینا ہے۔فراراندرہ نے مجھے کہا کہ جب تک سحر ہے میں اسے قبول کروں گا۔ (اس نے سوچا کہ میں اپنی بہن کے سامنے کچھ نہیں کروں گا، لیکن وہ اندھی تھی۔) میں نے اسے گلے سے لگایا اور اسے بستر پر لٹا دیا۔ پہلے میں نے اس سے ایک بڑا بوسہ لیا اور اس کے ہونٹوں کو کھانے لگا۔ ہونٹوں کے بعد میں اس کے پاس گیا۔ شیما نے سر ہلایا اور کہا کہ ایسا نہیں ہوگا، اس نے کہا، "تو، سحرچی؟" میں نے سحر کی طرف دیکھا۔ میں کپ سے اٹھ کر سحر کے پاس گیا میں نے اسے آنے کو کہا، یہ ٹھیک ہے، بس یہ ایک۔لیکن اس نے نہیں مانا اسی لیے میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بستر پر بٹھا دیا۔ شیما نے کہا، "اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری بہن پر برا وقت آئے۔ میں نے اسے ایک فلم میں سپرپوز کیا تھا) شیما جس کے پاس میری پتلون کے بٹن کھولنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اور زبردستی میری پتلون کو نیچے اتار دیا۔ اور تھوڑا سا شارٹس پہنا اور اپنے ہاتھوں کا استعمال کیا۔حالانکہ میں نے پہلی بار سیکس کیا تھا، لیکن میں نے ان فلموں سے کچھ تجربات کیے جو میں نے دیکھی تھیں۔ اسے پسند آیا۔ اسی وجہ سے میں اس کی ناف پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔ اس کی تفصیل میں شیما نے کہا، "تو میں کیا ہوں؟" کیا منظر تھا، دونوں خوبصورت گورے ایک ساتھ سو رہے تھے۔ وہ منظر زندگی بھر نہیں بھولوں گا جب میں نے کسی کو کھانا شروع کیا ارے میں وقتاً فوقتاً شیمارو کھاتا رہتا تھا اور کبھی کبھی جب میں ان میں سے ایک کھاتا تھا تو مجھے اس پر انگلی اٹھانی پڑتی تھی، کاش آیا، میں نے محسوس کیا کہ وہ مطمئن ہے، میں اسے بہتر محسوس کرنے کے لیے کاش کو تیزی سے چاٹا اور سارا پانی پی لیا۔
دختره پررو.برادره خودته،خودت بايد بهش كون بدي.منم ديگه آخره عصبانيت،دوباره شيمارو به حالت قبل بازگردوندم.كيرمو سره سوراخ كونش گذاشتم وبا اولين فشار هرچي زور داشتم زدم اونم باكون وكيره خشكه(ببين چي شد)(همونطور كه گفته بودم من باره اولم بود كه سكس داشتم وفقط تو فيلمها يه چيزايي ديده بودم كه اونارو هم از اونجايي كه هول كون كردن بودم كاملا فراموش كرده بودم)با اينكاره من شيما دادي زدو شروع كرد به فحش دادن كه چرا عوضي چرا خشكه اين كارو مي كني.منو سحر كه اين صحنه روديديم شروع كرديم به خنديدن.بعد سحر رفت ازتوي كشو يه كرم آورد و گفت بيا اينو درش بمال.منم يه ذره به كيرم زدم ويه خوردشو سره سوراخ.بعد كيرمو آروم آروم وارد كردم.با اينكه قبلش يه سره انگشت توش كرده بودم بازم خيلي تنگ بود.بعداز چندبار عقب وجلو رفتن ديگه جا باز كرد وشروع كردم به تلمبه زدن.بعد از دوسه دقيقه تلمبه زدن آه وناله هاي شهوتي شيما در اومده بود.بعد نگام به سحر خورد.با حسرت به محل تقاطع كير وكون نگاه مي كرد.بهش گفتم سحر خيلي دوست داري هااااا.سحرگفت جون داداش بامنم يه ذره بكن.با اينكه دلم نمي خواست تو كون خواهرم بكنم ولي براي خوشحالي اش راضي شدم.شيمارو بلند كردم وسحر رو جاش خوابوندم.هرچي كرم مونده بود دره سوراخش ماليدم و كارم رو شروع كردم.شيما با ديدن اين صحنه بهمون گفت خيلي پستيد.مي گفت تازه بعد اون همه درد حالا تازه داشت لذت مي برد.ولي من به حرفاش محل نذاشتم وبيشتر حواسم به اين بود كه خواهرم بيشتر لذت ببره.در توصيف كونش بگم كه معركه بود.با اينكه خيلي تنگ بود ولي بازم لذتش بيشتر بود وقتي اه وناله هاي سحر در اومد بيشتر كيف كردم.بالا خره بعد از چند دقيقه آبم ديگه داشت ميومد.خواستم به سحرچيزي نگم وتموم آبمو توش خالي كنم ولي ترسيدم ناراحت بشه.آخه خيلي دوستش دارم ونميخواستم ناراحتش كنم.واسه همين يه نگاه به شيما انداختم كه گوشه تخت نشسته بود.بهش گفتم ميخواي با تو ادامه بدم.فكركنم ميدونست اومدن آبم نزديكه.واسه همين بهم گفت به شرطي كه آبتو رو سينه هام بريزي وبعد اونا رو بمكي.منم بيخودي قبول كردم ورفتم رو شيما.هنوز به يه دقيقه نرسيده بود كه ديگه وقتش رسيد.دوسه تا تلمبه محكم زدم وكيرمو تا ته جا كردم بعدش ازپشت سينه هاي شيمارو گرفتم تافرار نكنه بعد با تموم قوا همه آبمو توكونه شيما خالي كردم و دوباره او شروع به فحش دادن كرد.وقتي آبم خالي شد از جايم بلند شدم.سحر نگاهي به كيرم كرد،گفت تموم شد؟؟؟شيما گفت آره خره.نديدي چه جور منو چسبيد.سحر خيلي ناراحت شد آخه خيلي دلش ميخواست اومدن آب از كيرمو ببينه.منم بغلش كردم وبهش گفتم كه اشكالي نداره،دفعه بعد مي ذارم ببيني.با اين حرف من هر سه تامون خندمون گرفت.بعد از كلي خنديدن سحرشروع كرد به سربه سر گذاشتن شيما.بهش مي گفت آبي كه خوردي شيرين بود.بهش مي گفت باشه اشكالي نداره آبي كه خوردي باعث رشد كردنت ميشه.ازطرف ديگه شيما مي گفت اتفاقا من خيلي خوشم اومد كه ابشو تو ريخت.بالاخره بعد از اتمام كري هاي اوناهرسه تا به حمام رفتيم كه به زور تونستيم دوش بگيريم.توي حمام هم چندتا لب اساسي از سحر گرفتم كه تا عمردارم فراموش نخواهم كرد.وقتي ازحمام بيرون اومديم سحروشيمابه اتاق سحررفتن وبه من گفتن تو واسمون شربت بيار.وقتي شربتو درست كرد به اتاق بردم.واي چه صحنه اي.هردوتاشون روي زمين خوابيده بودن وپاهاشونو از روي كون درد تا جايي كه امكان داشت باز كرده بودن.خيلي دلم ميخواست كيرم دوباره راست بشه ودوباره…ولي نشد.ولي يه فكره بكر.شربت ها رو به اونا دادم وسريع به آشپزخونه برگشتم شيشه شربت آلبالو را برداشتم وبايه سفره به اتاق پذيرايي اومدم.بعد صدا سحر زدم.وقتي سحر اومد،سفره را پهن كردم وبه سحر گفتم روش بخوابه.سحرخنديدوگفت ميخواي چه كني؟بهش گفتم نترس بهت خوش مي گذره.سحر رو ازشكم روي سفره خوابوندم وبيشتر شيشه شربت رو رو درز كونش وهمينطور درز كسش خالي كردم وشروع كردم به ليسيدنش.واي سحر رو بگيد كه چقدر كيف كرده بود.همونطور با صداي بلند آه وناله مي كرد ومنم ازسوراخ كونش گرفته تاروي شكم وكسش همه روليسيدم.كه دوباره سحر ارضا شد وآب از كسش اومد.باقيمانده شربت رو دوباره روي آب كسش ريختم ومشغول خوردن شدم.نميدونيد چه لذتي داشت.وقتي شيماازاتاق بيرون اومد بهم اعتراض كردوگفت واسه منم بايد اينكارو بكني اما من به طرز فيلم هاي هندي سحررو بغل گرفتم ودوباره واسه دوش گرفتن بردمش تو حمام.شيما كه به شدت عصباني شده بود،اومد پشت در ويه سره لقد به در ميزد.ولي مافقط مي خنديديم.فقط شانس داشتيم كه خونمون بزرگه واگه خونه ماهم مثله خونه هاي شصت هفتادمتري تهرون بود اون موقع همه همسايه ها و بروبچ محل مي فهميدند.